مشن کشمیر

مشن کشمیر

Written By : Gen Mirza Aslam Beg
اقوام متحدہ میں متعین پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نےسابق بھارتی وزیراعظم نہرو کی جانب سےاقوام عالم کے سامنےکشمیریوں کے ساتھ کئے گئےجھوٹے وعدے یاد دلاتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ‘‘مشن کشمیر’’ کا نام دیا ہے۔نہرو نے اقوام متحدہ میں کہا تھا کہ ‘‘ہم دنیا کو یقین دلاتے ہیں کہ کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دیں گے۔’’ لیکن چھ دہائیاں گذرنے کے باوجود بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی اداروں کی ناکامیوں نے مسئلہ کشمیر کو اس نازک مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ‘‘اب صرف گولی کے ذریعے ہی فیصلہ ممکن ہوگا’’ کیونکہ انسانی حقوق کے محافظ کشمیریوں کو انصا ف دلانے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔
اس سال کے اوائل میں پٹھان کوٹ پر ہونے والےحملے کی ذمہ داری ‘‘کشمیر جہادی کونسل’’ نے قبول کی تھی جو تیسری نوجوان نسل کی ایک نئی جہادی تنظیم ہے’ بالکل اسی طرح جیسا کہ افغان جہادیوں کی دوسری نسل کو طالبان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔دونوں تنظیموں کے مابین ایک نظریاتی تعلق ہے کیونکہ دونوں ہی اپنی اپنی جنگ آزادی میں شامل ہیں۔1990ء میں سوویٹ یونین کی پسپائی کے بعد افغان جہادی کشمیر اور یمن چلے گئے تھے جس سے کشمیر کی تحریک آزادی میں نیا ولولہ پیدا ہوا اور اس وقت سے لے کر اب تک ایک لاکھ کے لگ بھگ حریت پسندوں کو بھارتیوں نے قتل کیا ہےجس نے مسئلہ کشمیر کوایک ابلتے ہوئے لاوے کی شکل میں بدل دیا ہے۔یمن میں جہادیوں کی مدد سے احمد صالح فتحیاب ہوئے اور جنوبی اور شمالی یمن کو متحد کرکے وہاں پر حکمرانی کرتے رہے۔ اوڑی کے فوجی ٹھکانے پر ہونے والے حالیہ حملے کی ذمہ داری کشمیر جہادی کونسل نے قبول نہیں کی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں پر واقع پٹرول ڈپو میں آگ لگ گئی تھی جسے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیری جہادیوں کی جانب سے حملے کا نام دیا گیا ہے تاکہ کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی ظلم و بربریت پر پردہ ڈالا جا سکے۔اوڑی جوکہ جموں کا ایک حصہ ہے’ وہاں کی اکثریتی آبادی ہندو ہونے کی وجہ سے تحریک آزادی کی مخالف ہے۔ حادثے کا مقام ایک نہایت محفوظ جگہ تھی جو 10 ڈوگرا بٹالین کے سخت پہرے میں تھی۔10 ڈوگرا بٹالین میں 65 فیصد سکھ سپاہی ہیں اور یہ امر قابل غور ہے کہ جہادیوں کیلئے سکھوں کونشانہ بنانا کچھ درست نہ تھا کیونکہ وہ خالستان تحریک میں جان پیدا ہونےکے بعدان سے مدد کی توقع رکھتے ہیں۔ایک اور قابل غور بات یہ ہےکہ پٹھان کوٹ پر حملے کے بعد بھارتی سکیورٹی اداروں نے جہادیوں کو ختم کرنے میں ایک ہفتہ لگایا تھا جبکہ اوڑی کے واقعہ میں صرف چھ گھنٹوں کے اندر اندر چاروں جہادیوں کو مارنے کا دعوی ہے اور ان کی لاشیں بھی نہیں دکھائی گئیں اورجو ہیلی کاپٹران کی اپنی لاشوں کو اٹھا رہے تھے ان پر کسی جانب سے گولیوں اور راکٹوں سے فائر تک نہیں کیا گیا۔ روس’ امریکہ اور یورپ نے افغانیوں کے خلاف بھرپور جنگ لڑی تاکہ ان کی تحریک آزادی کو ملیا میٹ کیا جا سکے لیکن وہ قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہیں۔یہ تحریک آزادی کی طاقت ہے’ جسے کوئی نہ جھکا سکتا ہے اور نہ ہی توڑ سکتا ہے۔اسی طرح ‘‘مشن کشمیر’’ بھی ایک مضبوط مزاحمتی قوت ہے جو بھارت کے عالمی طاقت بننے کے عزائم کی راہ میں مخل ہےاور بھارت کیلئےخلیج فارس سے لے کر ملاکا تک کے علاقے میں اپنے جغرافیائی و سیاسی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔اسی لئے بھارت اقتصادی وعسکری ذرائع سےاپنی تذویراتی پہنچ کا دائرہ وسیع کرنے کی کوششوں میں ہے۔لہذا بھارت نے امریکہ کے ساتھ ۲۰۰۵ء میں سٹریٹیجک پارٹنر شپ معاہدہ کیا جس کی مدد سے اس نےافغانستان میں اپنے قدم جما کر پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے خلاف جاسوسی کا وسیع نیٹ ورک قائم کیا۔اس معاہدے کے اہداف تھے کہ‘‘ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کو محدود کر کےمزید پھیلنے سےروکا جائے اور خطے میں اسلامی قوتوں کو دبایا جائے۔’’ اس سازش کے تحت افغانستان کو جنوبی ایشیا کا حصہ ظاہر کیا گیا تاکہ افغانستان سے بنگلہ دیش تک کے علاقے میں بھارت کی بالادستی قائم کی جاسکے لیکن بھارت کے ان خوابوں کو افغانیوں کی قوت مزاحمت نے شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا اوراب وہ افغان حکومت کیلئے خطرہ بن چکے ہیں جو پہلے ہی لڑکھڑا رہی ہے۔بھارت کیلئے یہ بہت بڑی شکست ہے اور اب کشمیر میں انہیں ایک دوسری بڑی شکست کا سامنا ہے۔گذشتہ دس برسوں سے بھارت اپنی مسلح افواج کو جدید بنانے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے لیکن پاکستان کے مقابلے میں اسےتکنیکی مہارت کے میدان میں ناکامی کا سامنا ہے’ جس کے اسباب یہ ہیں: • بلا شبہ بھارتی مسلح افواج کو عددی اعتبار سے پاکستان پر سبقت حاصل ہے لیکن تکنیکی مہارت کے میدان میں پاکستان سے بہت پیچھے ہے اوریہی امر جنگ میں فیصلہ کن کردار کا حامل ہوتا ہے۔ہمارے پاس اپنے ملک میں جنگی ٹینک’ گائیڈڈ میزائل‘ گنیں‘ گولہ بارود اور مختلف انواع کا جنگی سازوسامان تیار کرنے کی سہولیات میسر ہیں۔پاکستان نیوی کو جنگی جہاز اور خفیہ حملہ کرنے والی ابدوزیں تیار کرنے کی مہارت حاصل ہے اور ائر فورس اپنے بنائے ہوئےجے ایف 17 طیاروں’ اور ایک مضبوط اینٹی ائر مزائلوں کے نظام سے آراستہ ہے جو ایک واضح صلاحیت ہے۔ روس کے ایس یو 35 طیاروں اور چین کے جے 31 طیاروں کی شمولت سے پاکستان ائر فورس جارحانہ دفاع کے قابل ہو جائےگی جو دشمن کے علاقے میں دور تک اندر کاروائی کرنے کی موثر صلاحیت ہوگی۔بھارتی مسلح افواج ابھی تک شامل ہونے والے نئے تکنیکی اسلحہ اور دیگر جنگی سازوسامان سے ہم آہنگ نہیں ہو سکی ہیں جو ان کی کارکردگی کو بری طرح سے متاثر کررہی ہے۔ • بھارت کی جنگ لڑنے کی صلاحیت صرف پندرہ دنوں تک محدود ہے جبکہ پاکستان کو چالیس دن جنگ لڑنے کی صلاحیت حاصل ہے۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو جنگی اسلحہ ’گولہ بارود اور دیگر سازوسامان اندرون ملک تیار کرنے کی مہارت حاصل ہے جبکہ بھارت اس لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔خیال رہے آج کے دور میں مانگے تانگے ہتھیاروں کے بل بوتے پر جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ • بھارت جتنی بھی تیزی دکھائے ’ چھ دنوں سے کم وقت میں اپنی فوجوں کو اگلے مورچوں تک نہیں پہنچا سکے گا جبکہ پاکستان کو اس مقصد میں صرف دو دن لگیں گے اور یہی صلاحیت بھارت کے کولڈ سٹارٹ نظریے(Cold Start Doctrine) کو ناکام بناتی ہے’ لہذا’اگرسیاسی قیادت نےفیصلہ کیا تو پاکستان پہلے حملہ کرنے کی مکمل صلاحیت (Pre-emptive strike)رکھتا ہے۔ • چار لاکھ سے زائد بھارتی لڑاکافوج کشمیر میں پھنسی ہوئی ہے اور وہاں سے نکل نہیں سکتی جبکہ پاکستان کی ۱یک لاکھ پچاس ہزار لڑاکافوج جو آپریشن ضرب عضب کے سلسلے میں شمالی علاقوں میں تھی اب واپس اپنے ٹھکانوں پرآچکی ہے اوراپنے محاذوں پر جانے کیلئے تیار ہے۔ • اطلاعات کے مطابق بھارتی فضائیہ کے دولڑاکاسکواڈرن شمالی علاقوں میں نام نہاد ‘‘سرجیکل سٹرائیک’’ کی مدد کیلئے لائن آف کنٹرول کے ساتھ متعین کئے گئے ہیں۔بوفر گنیں اور انفنٹری کی یونٹیں اگلے محاذوں تک پہنچ رہی ہیں لیکن پاکستان اس خطرے سے نمٹنے کیلئےزمینی و فضائی دونوں میدانوں میں مکمل طور پرتیار ہے۔یہ ہماری انٹیلی جنس ادارے کا کمال ہے کہ بروقت اطلاع کر کے سازش کو ناکام بنایا ہے اور بھارت کی کولڈ سٹارٹ(Cold Start) جنگ کی حکمت عملی کو ناکامی کا چہرہ دکھادیا ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ کھلے عام بھارت کی مدد پر کمر بستہ ہے۔ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں خطاب کے دوران صدر باراک اوبامہ نے کشمیر کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا جو امریکہ کے چہرے پر بدنما داغ ہے کیونکہ ایک جانب تو وہ انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں اور دوسری جانب نہتےکشمیری عوام پر جاری بھارتی ظلم و بربریت پر اپنی آنکھیں اور دماغ بند کر رکھے ہیں جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کاحق مانگ رہے ہیں۔ دوسری جانب چین ہے جو پاکستان کا مخلص اور بااعتماد دوست ہے اوربھارت کی جانب سے کسی خطرے کی صورت میں اپنی فوجیں بھارتی سرحدوں پر لانے سے دریغ نہیں کرے گا اور اسی دم بھارت کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ بھارت کیلئے اب مشکل مرحلہ ہے کہ کونسا راستہ اختیار کرے’ یا تو مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل تلاش کرے یابزور طاقت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچل دینے کی راہ اختیار کرے۔دعا ہے کہ تعصب اور اندھی طاقت کے گھمنڈ کے خلاف عقل وشعور کی فتح ہو۔ نئے معاہدے کے تحت بھارت چاہے تو افغانستان میں موجودامریکی فضائی اڈے اورعسکری سہولیات بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتا ہےلیکن فکر کی بات نہیں ہے اسلئےکہ افغان طالبان اس سے نمٹ لیں گے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں لیکن اسے استعمال کرنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ ایٹمی اسلحہ استعمال کرنے کا فیصلہ صرف ‘‘بیمار ذہن’’ ہی کر سکتا ہے اور وہ بھی کسی کمزورقوم کے خلاف جیسا کہ 1945 میں جاپان کے خلاف کیا گیا تھا جہاں سے انہیں کسی قسم کی جوابی کاروائی کا خوف نہیں تھا۔لہذاہمیں روایتی ایٹمی مزاحمتی معیار کو ہی برقرار رکھنا ہوگا کیونکہ ایٹمی ہتھیار جنگ کیلئے نہیں ہوتےاور بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے جیسی دونوں مہذب قومیں ایسے غیر مہذب اقدام کی حامل نہیں ہو سکتیں جو ہزاروں سالہ قدیم تہذیبوں کی امین ہیں۔