جے آئی ٹی نےسیاسی گندگی کی کھدائی مکمل کر لی

جے آئی ٹی نےسیاسی گندگی کی کھدائی مکمل کر لی

Written By : Gen Mirza Aslam Beg
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کے ماتحت اداروں کے افسروں کو اپنے منتخب وزیراعظم کی تفتیش کی ذمہ داری سونپی ۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کے ماتحت اداروں کے افسروں کو اپنے منتخب وزیراعظم کی تفتیش کی ذمہ داری سونپی ۔اورجیسےہی جے آئی ٹی(JIT) نے اپنے کام کا آغاز کیا’ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاکے کندھوں پر سوار ہو کر وزیراعظم کی کردار کشی کا نہ رکنے والاسلسلہ شروع کردیا تاکہ ایسے حالات پیدا کردیے جائیں جس سے آئندہ انتخابات سے پہلے ہی حکومت تبدیل ہونے کی راہ ہموار کی جا سکے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے نتائج بھی 2008 ءجیسے ہوں’ جس پر تبصرہ کرتے ہوئےواشنگٹن ٹائمز نے 19 مارچ 2008ء کے اداریے میں لکھا تھا کہ:
" امریکہ کے پالیسی سازادارے اس وقت کویاد کر کے روئیں گےجب انہوں نے جنرل مشرف کوپاکستان میں حکومت کی تبدیلی کیلئے جمہوریت بحال کرنے کا مشورہ دیا تھا۔یہی جمہوریت ہے جو اب حقیقی معنوں میں ابھر کر سامنے آئی ہے’ یعنی امریکہ سے نفرت کرنے والوں کا ناپاک اتحاد کامیاب ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس صورت حال نے (جنرل )کیانی کو بھی پریشانی سے دوچار کر دیا ہے جنہیں جنرل مشرف نے عسکری کمان سونپی ہے۔’’
اگر آئندہ سال شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات منعقد ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں اور یہی بات ہمارے آقا’ یعنی گارڈ فادر کو پسند نہیں کیونکہ ان کی ترجیح سیکولر پاکستان ہے تاکہ پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا جائے اوراسے بھارت کے ساتھ تہذیبی’ثقافتی اورمعاشرتی لحاظ سے ہم آہنگ کر کے افغانستان سے بنگلہ دیش تک بھارتی بالا دستی قائم کرنے کا دیرینہ خواب پورا ہو سکے۔اس مقصد کیلئے 2005ء میں افغانستان کو جنوبی ایشیاء کا حصہ ظاہر کیا گیا تھا۔ حیرت ہے کہ افغان حریت پسندوں کے ہاتھوں شرمناک شکست اٹھانے کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی ایسی سازشوں سےابھی تک باز نہیں آئے ہیں۔
سب سے زیادہ پریشان کن وہ منظرتھا جوجے آئی ٹی کی حاصل کردہ شہادتوں کے تابوت نمابڑے بڑے بکسوں میں سپریم کورٹ لایاجا رہاتھا۔یہ منظر دیکھ کر اچانک خیال آیا کہ جیسے ‘‘ جمہوریت کی قدروں کا جنازہ ہے جسے پورے اعزاز کے ساتھ دفنانے کی تیاری ہو رہی ہے’’ اوراس میں شک بھی نہیں ہے کہ ہمارا جمہوری نظام ’حزب اختلاف اور میڈیا کی مدد سےآج اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو کے الفاظ یاد دلا رہا ہے کہ ‘‘ایک دن آپ میرےوالد کو یاد کر کے روئیں گے۔’’ آج وہی دن ہمارے سامنےہے۔یہ جمہوریت کی تذلیل (Political aberration)کی ایک شکل ہے جو 1979ء میں فوجی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے عبارت ہے۔ یہ منفی سوچ آج اپنے عروج پر ہے۔ فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی ہے جہاں پاکستانی قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ آیا 2018ء کے انتخابات کے ذریعے جمہوری عمل کو جاری رکھنا ہے یا اس راستے پر چلنا ہے جو خرابی کا راستہ ہے۔
ہماری سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کی کردار کشی اور کیچڑ اچھالنے کی روش کے نتیجے میں ہمارے ووٹروں نے اپنے رحجان کا اظہار کیا ہے۔کراچی اور گلگت بلتستان میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ووٹروں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ’ دونوں کو رد کر تے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندوں کو ووٹ دیے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی عوام کے ذہنوں میں ابھرتی ہوئی اس تبدیلی کو سمجھ نہیں پارہی ہے اور حزب اختلاف کے بینڈ ویگن پر سوار ہے۔ جہاں تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے تو اسے اپنے رویوں اور سیاسی ترجیحات پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے ’ جن کے سبب آج وہ اس فساد سے دوچار ہیں۔ ان خامیوں کودور کرنا لازم ہے:
• وزیر اعظم نےپارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت نہ کرکے اس ادارے کی توہین کی ہے اوراس سیاسی قوت کے مرکز کو سیاسی نظام کو مستحکم کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا اور اپنے گھر میں بیٹھ کر کچن کابینہ کے مشوروں سے حکومت چلائی گئی ۔
• اپنے خاندان کے افراد اور خوشامدی ٹولے پر اعتماد کے سبب آج انہیں یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔اس رویے نے وزیراعظم کوقابل اعتماد اور با صلاحیت افراد سے الگ کر دیا ہے جوملکی معاملات میں انہیں بہتر اور سود مند مشورے دے سکتے تھے۔
• ذاتی پسند و ناپسند کے فیصلے وزیراعظم کیلئے نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں اور انہیں رویوں کی بدولت انہیں موجودہ حالات کا سامنا ہے۔اس کی بجائے انہیں ‘نیشنل سکیورٹی کونسل ’ کی طرز کاایک مشاورتی ادارہ قائم کرنا چاہیئے تھاجو سال کے تین سو پینسٹھ(365)دن کام کرتا اور ملکی معاملات پر حکومت کیلئے راہنما اصول مرتب کرے اور بلاواسطہ طور پر وزیراعظم کو جوابدہ ہوتا۔نواز شریف نیشنل سکیورٹی کونسل کے نام سے وہمی خطرے میں مبتلا ہیں لہذا ان کی جماعت کو فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے اس وہم کو دور کرناہوگا۔
• 1958ء سے لے کر اب تک ملک کے مختلف حصوں میں متعدد فوجی آپریشن کئے جا چکے ہیں جس کے سبب ملک کے چالیس فیصد سے زائدعلاقے فوج کی عملداری میں ہیں۔ یہ صورت حال جمہوریت کے منہ پر بدنما داغ ہے۔ آئندہ انتخابات میں جو بھی جماعت برسراقتدار آئے’ اسے دن رات کام کر کے ان علاقوں میں سول انتظامیہ کو فعال کرکے اپنی حکومتی رٹ قائم کرنا لازم ہے۔
جہاں تک جے آئی ٹی کی تحقیقات کا معاملہ ہے ’ سپریم کورٹ نے 20اپریل 2017ء کے فیصلے کے ‘‘تمہیدی کلمات’’ میں واضح کر دیا تھا کہ: " تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے جب حقائق بے نقاب ہوجا ئیں اور شہادتیں اکٹھی کر لی جائیں تو معاملہ مجازعدالت کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ آرٹیکل 10-A کے تحت حاصل شخصی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئےآئین و قانون کے مطابق فیصلہ کیا جاسکے۔ کسی کو مجرم قرار دے کرسزا سنانا تب ہی ممکن ہوتاہے جب قانون شہادت کے مطابق اس پر جرم ثابت ہو جائے۔’’ (سپریم کورٹ کے فیصلے کا صفحہ483)
لہذا اب مجاز عدالت ان شہادتوں کی جانچ پڑتال کرے گی اورایک ‘‘طویل آئینی مراحل ’’ سے گذرنے کے بعد فیصلہ دے گی۔ اس کام کی تکمیل میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں اور اسی دوران 2018ء کے عام انتخابات بھی منعقد ہوسکتے ہیں ۔صاف ستھرے انتخابات کے عمل سے جمہوریت کا روشن چہرہ سامنے آئے گااور جمہوری اقدار مضبوط ہوں گی۔انشاء اللہ۔ ان انتخابات میں جو نئے چہرے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آئیں گے وہ روشن خیال’ آئین پرست اورقومی معاملات کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہوں گےاور صحت مند جمہوری روایات کے فروغ کا سبب بنیں گے جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب مجاز عدالت کے فیصلے کو صدق دل سے تسلیم کیا جائے۔