میں، میری، میرا، ہم، ہمارا۔۔۔۔ I, Me, Mine, Us, We, Ours …

میں، میری، میرا، ہم، ہمارا۔۔۔۔ I, Me, Mine, Us, We, Ours …

Written By : Bakhtiar Hakeem

ابتدائیہ۔  کیا یہ مشکل اورگنجلک الفاظ یا اصطلاحات ہیں ؟ ان پرمضمون لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ نہیں یہ تو زبان زدہ عام؛ ہر گھڑی زیرِ استعمال، بے ضرر سے الفاظ ہیں۔ آئیے اِن ہردم ادا ہونے والے بظاہر معصوم اظہاراتِ ملکییت، اپنائیت اور پہچان کے چھوٹے بڑے دائروں کا بغور جائزہ لیتے ہیں کہ تہہِ خاک تماشہ کیا ہے۔۔۔۔ کہیں یہ کوتاہ اندیشی اورتنگ نظرکے پرتو تو نہیں۔ کہیں یہ کاوشِ دریافت مجھے میرے تعصبات سمیت سرِ بازار بے لباس نہ کردے۔ مگرایک بہت بڑا فائدہ بھی ہو سکتا ہے کہ ماہ وسال کے فاصلے لپیٹتے اور سر کے کالوں کو سفید کرتے میری پہچان، حثیت اوردائرہ اثر چھوٹا تو نہیں ہوتا چلا گیا! میں جس بِل میں پیدا ہوا تھا۔۔۔۔ اسی میں پڑے پڑے بوڑھا تو نہیں ہو گیا؟  پتہ چلے کہ میں تجربہ کار، بزرگ اورعقلمند ہونے کے زعم میں اپنے گرد انّا پسندی، ہٹ دھرمی، خود پرستی، بُزدلی اور جہالت کی دیواریں موٹی، اونچی اورمضبوط کرتا رہا۔

 

 

 

 

I, Pirzada syed Mubarak Ali shah, sajjada nasheen Pir Mehr Ali, Karman Walay.  So very unique and superior to all the rest; except my direct ancestors.

I, son of Adam, pbuh, the single soul, father of all. Thus brother and sister of whole mankind. Just like all of them.

کھوج اور تحقیق کے تین یا چار راستے ہو سکتے تھے، آئیے تلاش حقیقت کے اس نہ ختم ہونے والے سفر پر نکلتے ہیں۔ بشرطیکہ بہتری مقصود ہو۔  

 

I        میں                                                          میں       I

شائد اب آپکو احساس ہو گیا ہو کہ معا ملہ اتنا آسان نہیں۔ کہیئے آپ کہاں کھڑے ہیں؟ اوپر دی گئی تصویر کو بغو دیکھئیے۔ آپ ان دو تیروں کے کس کنارے پر ہیں؟  نہیں۔۔۔۔ کناروں پر نہیں تو کیا درمیان میں ہیں، ٹھیک درمیان ؟ ۔۔۔۔ نہیں، توپھر کہاں؟  کبھی ادِھراور کبھی اُدھر؟؟؟ کیا سفر جاری ہے ۔۔۔۔  کیا پہچان کی تقسیم در تقسیم کی جانب یا آگہی کی وسعت کی جانب؟ اگر تو خالق سے سبق حاصل کرنے لگ گئے ہیں تو ۔۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔۔ یہ مقالہ یقینا" بہت مدد گار ثابت ہو گا۔  

1۔ یار یہ جو ہمارا پنڈ ہے، یہ قریشیوں کا ہے۔ یہاں یہ کسی دوسرے کے پاؤں ٹکنے نہیں دیتے۔   ہم توجدی پشتی آڑھتی ہیں ۔۔۔ تمہیں تو معلوم ہی ہے۔ یہآں سب کچھ قریشوں کا ہے۔ مجھے کچھ ڈرتو پہلے ہی تھا، لیکن دس سال پہلے قریشی اتنے تکڑے نہ تھے۔ میں نے گجر پڑول پمپ کھولا۔۔۔۔ ان لوگوں نے میرا بائیکاٹ کردیا، بہت نقصان ہوا ہوا لیکن میں نے برداشت کرلیا، اور چھوٹے بھائی کے ساتھ گجر آڑھتیی سنٹر پر آ بیٹھا۔ اب اگراپنی آڑھت ہی بند کرنی پڑ گی تو ۔۔۔۔ تو ہم زندہ درگور ہو جایئں گے۔  

2۔  دو اور دو کیا ہوتا ہے؟ بھوکا بولا۔۔۔۔۔ چار روٹیاں۔  میں نے  مینجمنٹ کے پرفیسر سے پوچھا۔۔۔۔ اس نے کچھ سوچا پھر بولا۔۔۔۔ آؤ ایک مضمون پڑھ        . لو۔۔۔۔    

      2+2 = 5   (Synergy)

 

 

 

 

I, was Pakistani Then I lost East Pakistan

I was company commander of two posts holding the area between Karnaphuli Bridge to Amnat Shah Bridge in Chittagong. Enemy kept banging its head for two months; no way; we stood like a rock till last day.

3۔ دو دوست کار میں جا رہے تھے۔ ایک کا موڈ سخت خراب تھا۔۔۔۔ اور گاڑی بھی چلا رہا تھا۔۔۔ بولا، یہ سیاسی لیڈر ہیں یا سیاسی چور ۔۔۔۔ سب کھا جاتے ہیں۔ پچھلے سال ہی یہ سڑک بنی تھی۔۔۔۔ اب جگہ جگہ سے بیٹھ گئی ہے۔  دو بارشیں کیا آئیں ۔۔۔۔۔ کرپشن کھل کر سامنے آ گیئ۔۔۔۔۔ دوسرا مسلسل باہر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ بولا واہ یار واہ۔ ہمارے ملک نے کیا ترقی کی ہے۔۔۔۔۔ پچھلے پانچ کلو میڑ سے یہ میٹرو ہمارے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔۔۔۔۔ ہر بس فٓل ہے۔۔۔۔ ہر چار منٹ کے بعد ایک بس یا آ رہی ہے یا جا رہی ہے۔۔۔۔  سینکڑوں ہزاروں لوگ اس سہولت سے مستفیض ہو رہے ہیں۔

 

4۔  میرا ملک پاکستان؛ مسلم ممالک میں واحد ایٹمی قوت۔۔۔۔دنیا میں چوتھا۔۔۔ او بھائی شیخ چلیۤ جاگو۔۔۔۔ وہ دیکھو میرا بنگلہ ۔ واہ یار کیا محل نما ہے۔۔۔۔ یہ کب بنایا؟ اسلام آباد والا ہے یا بیچ کر یہ بنایا؟ میرے منے، یہ فارم ہاوس ہے؛ دو ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔۔۔۔  پچھلے سال ہی بنایا ہے۔ یاد آیا، تم تو میری شادی میں شامل ہوۓ تھے۔ ہاں ہوا تھا۔ تو دوسری بیگم کو بنا کر دیا ہے نا۔  وہ یہاں رہتی ہے۔ ہمارا فش فارم بھی ہے اور زو بھی۔  

5۔ اللہ نے ہماری زمیں بہت وسیع بنا دی۔ اس کو پہاڑوں، وادیوں اور دریاوں اور جھیلوں سے مزین کر دیا۔ سمندر، اجزائے زمینی، ہوا اور بادلوں سے ایک نظام حیات ترتیب دے دیا۔ پھر ایک کائنات نباتات پیدا کی، پھر اک کائناتِ حیوانی پیدا کی۔۔۔۔۔ جب سب تیار ہو گیا تو اپنی سب سے بہترین مخلوق کو اتارا۔ یہی نہیں سب سے پہلے انسان کو نبی کے رتبے پر معمور کر دیا۔ اسے علمی فضیلت کی بنا پر فرشتوں سے افضل قرار دے دیا۔ وہ یہ کام چند صدیوں بعد بھی تو کر سکتا تھا؛ نہیں ۔۔۔۔ پہلا انسان مکمل ترقی یافتہ تھا۔ میں ہی نہ جان سکا۔  بگاڑ توعلم آ جانے اور اس کے قانون کو سیکھ جانے کے بعد پیدا ہونا شروع ہوا (3:19قرآن)۔ میں ہی اس نظام سے منکر ہو گیا کہ مالک وہ ہے، خلیفہ میں ہوں، اور یہ کہ اپنی خلقت میں ہم سب برابر ہیں۔ اس نے مجھے یہ بھی بتا دیا کہ قریب والے سے بہترقرار پانا ہے اور آگے نکلنا ہے تو ان سب سے زیادہ فیض مند بن کر دکھاؤ۔ برتری کا انحصار انسانیت کے لیے منافع بخش ہونے میں ہے۔  مگر میں نے برتری اور طاقت کا منبع و ماخذ زیادہ حاصل کرنے، پانے اور دائرہ تسلط کے مسلسل بڑا ہونے میں سمجھا۔  حیوانی قوت اور طاقت اور پھر اپنے لئے اپنا قانون بنانے اور اس کو نافذ کرنے کے حق کو آزادی جانا- میرے لیے میری آزادی؛ خُدائی قانون سے انکار میں پوشیدہ رہی۔  کہ نہیں ہے کوئی اور مالک مگر میں۔ خالق کی کبریائی دیکھیئے اس نے مجھے پوری طرح سے اور ہر طرح سے نافرمانی اور بغاوت کے لیے تا حیات کھلا چھوڑ دیا۔۔۔۔۔ اور انتباہ کردیا کہ میں حساب لوں گا؛ جزا اور سزا بھی دوں گا، مگر تب جب میرے پاس لوٹ کر آؤگے۔ اور ہاں تمہیں لوٹ کر تو آنا ہی ہے۔

6۔ یار ہماری پیلی (کھیت) باقی رقبے سے ذرا اونچی ہے۔۔۔۔۔ پانی ذرا مشکل سے چڑھتا ہے۔ ۔۔۔۔ ہمارے کھیت خونی مشہور ہیں۔۔۔۔۔ کیوں!  دوسالوں میں دو قتل ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔ یقین نہ آئے تو دادی سے پوچھ لینا۔ جس نے ہمارا پانی کاٹنا ہے۔۔۔۔۔ وہ آگے کا سوچ لے۔ ۔۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔۔۔ اوے اچھو ڈوگر کو نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔ ہائے معصوم :) یہاں اچھو ڈوگر سے پوچھے بغیر چڑی پر نہیں مار سکتی ۔

7۔ تمہیں زمینوں کی پڑی ہے۔ پتہ نہیں میرا تولیہ کون استعمال کر جاتا ہے۔۔۔۔ روز گیلا ہوتا ہے۔ او یار میرے سلیپر بھی ہر دوسرے دن کوئی استعمال کر جاتا ہے۔۔۔۔ جس دن پکڑا گیا۔۔۔۔۔ لال کر دوں گا۔ اب سے میں اپنے کمرے کو تا لا لگا کر رکھوں گا۔   

8۔  میں نے اپنی آزادی انفرادی حثیّت اور مقام کا پہلا اظہار اس کی حاکمیتِ کلُ کے انکار سے کیا۔ اور تاریخ کے اوراق نے خدا ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو محفوظ کر لیا ۔ سترھویں صدی میں قومی ریاستیں وجود میں آنے لگ گیئں تھیں۔ اور نظام بادشاہت، جہاں مذہب وہ ہو گا۔۔۔  جو بادشاہ کا ہو گا۔    [cius regio  cius relegio]

کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔  یہیں سے جمہورریت کا سفر شروع ہو گیا۔ جمہوریت کی بنیاد، اس اصول پر رکھی گئی کہ، قانون وہ ہو گا جس پر افراد کی اکثریت متفق ہو گی۔ اور یوں ایک نئے خدا کی داغ بیل ڈال دی گئی، یعنی وطن، ملک یا حکومت۔  آقبال کی نظم 'وطنیت' نظر سے گذری ہو گی، نہیں تو ضرورپڑھیۓ۔  

۔ 9۔ اس نے بڑائی کی بنیاد دینے میں رکھی تھی، جب اس کا تصور کمزور پڑا اور مفقود ہوتا چلا گیا ۔۔۔۔ تو پھر پہچان کا دائرہ پہلے وطن، پھر نسل، پھر علاقے یا خطے کے حوالے سے پھر میری قوم (سندھی، پنجابی، بنگالی، بلوچی یا پٹھان) پھر قبیلے، پھر ذات پھر کنبے؛ پھرخاندان اور آخر میں۔۔۔۔ میری روٹی میرے کپڑے اور میرے مکان تک محدود ہوتا چلا گیا- یوں میں، میرے اور ہم اور ہمارے کا دائرہ چھوٹا ہوتا چلا گیا۔۔۔۔۔ میرے قابل فخر حوالے۔۔۔۔ ہٹلر، ٹرومین، ملاجووچ، محمد خان ڈاکو، امام دین گوھاویا، الطاف حسین، جاوید اقبال، امران علی اورعزیر بلوچ بنتے چلے گئے۔ سب قوم پرست، نسل پرست، لسانی اور گروہی اور فرقہ پرستی کے تعصابات میری شان تقسیم میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ تنخواہ کے بائیس ٹکڑے بنا کر، نظام تعلیم کے ذریعے غریب اور امیر کی تقسیم کو مستقل اور گہرا بنا کر، آبادیوں اوربستیوں میں پیسے کو بنیاد بنا کر تہی دامن اور اشرافیہ کا طبقہ پیدا کردیا۔۔۔۔۔۔ پھر بھی ریاست مدینہ کی پھبتی پر نہ رونا آیا نہ ہنسی۔ 

اختتامیہ اور خلاصہ۔ جو کچھ آج میرا ہے کل میرا نہیں تھا۔ ذرا بصیرت کو وسعت دیجیئے، اپنی پہنی ہوئی قمیض کو دیکھ لیں یا اس دنیا کو۔ اب زندگی کے دوسرے کنارے سے جا کر رخ بدل کر دیکھئیے۔ جو بھی میرے اور آپکے قابل فخر و غرور سرمائے ہیں؛ یعنی یہ 2020 ماڈل کار، دس بیڈ روم بنی گالہ میں بنگلہ اور دبیئ        ۔۔۔۔۔۔ کل میرا نہیں ہوگا! تو میرا کیا ہے۔۔۔۔ ہمارا کیا ہے؟  Pent House, کا

نظر، نظر قلبی اور وسعت خیال کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ گذرتے شب و روز کے ساتھ بوڑھے نہیں بڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ میرے پاس، آپکے پاس یا کسی کے بھی پاس صرف یہ گھڑی ہے۔۔۔۔ یہ دن۔۔۔۔۔ اور ہاں مکمل اختیار۔۔۔۔۔ اس تحفہ انمول؛ وقت، کو کیسے گزارنے کی منصوبہ بندی یا سعی کرتا ہوں۔۔۔۔۔ کچھ دینے کی یا لینے کی۔

اسلام میرا حوالہ نمبر ایک ہوتا تو میں کچھ حساب دے پاتا کہ میں نے اس کی دنیا کے لیے کیا کیا؟ کوئی دوا بنائی؟ اپنے ہمسائے مودی یا کروڑوں اہلایان بھارت کے لئے پچھلے پانچ سالوں یا پچھلے ماہ کرونا وبا کے دوران کیا کیا ؟ پاکستانی تھا تو پاکستان کو کیا دے پایا؟  قومی محاصل میں کمی کیوں ہوئی؟  یا بچوں میں جنسی تشدد کے اضافے میں میرا قصور کتنا ہے؟ اور مجھے کیا سزا ملنی چاہیے۔۔۔۔ اور اب اس کے سد باب کے لئے کیا کر رہا ہوں۔ 

تو آیئے دینا سیکھیں، کسی کو وقت دیا؟ یہ بھی دینا ہے، انگلی پکڑ کر سڑک پار کروا دینا بھی ۔۔۔۔ اک مسکراہٹ بھی۔۔۔۔۔ کسی کو گم شدہ کتاب اورچابیاں ڈھونڈ دینا بھی۔۔۔اور غصب شدہ حقِ خود ارادیت بھی۔ آیئے کشمریوں کو آزادی لےدیں۔ جو دے پایا وہ میرا ہے۔

 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

A very deatailed study of human pschyche, about possession.