کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن

کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن

Written By : Bakhtiar Hakeem

۔ کسے نہیں ہے تمنائے سروری، ماسوائے ایک انتہائی قلیل تعداد کے۔ یا یوں کہہ لیں رہبانیت کے قائل اور جوگی بن کے رہنے والے اعشاریہ 5 فیصد سے بھی کم ہونگے۔ خالقِ کائنات کا خلیفہ ہونا اور پھر اس کی زمین پر اس کی حکومت کے لیے جد و جہد نہ کرنا۔۔۔۔۔ یہ کیونکر ممکن ہے۔ ہاں مگر رب کو رب یا خداماننا کونسی مجبوری ہے! ایک خلقتِ خدا اُسی خدا کے وجود سے منکر ہے اور اربوں خدا واحد کے منکر ہیں۔۔۔۔ کویئ تو مجبوری ہو گی ان سب منکرین خدا کی!  یہ خاصہ اور اعزاز   اشرف المخلوقات کے پاس ہی ہو سکتا تھا۔

۔  تو یہ ہے اک داستان حریت اور قصہ یا قضیہِ غلامی (مجبوری) کا تقابلی جائزہ۔ کچھ کے لئے اقتدار ایک امانت ربی، ایک عظیم اور مقدس ذمہ داری ہوتی ہے اور اس کے ساتھ انصاف کرنے لئے وہ اپنی جان کو پیش کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔

اے وطن پیارے وطن  پاک وطن  پاک وطن

تجھ سے ہے میری تمناوں کی دنیا پر نور

کیا آج 2021ء میں 29 فروری 2020 کا معاھدہ  اور 15 اگست 2021ء کو کابل پر طالبان کا  

بواپسی قبضہ مجبوروں کو کوئی پیغام دے رہا ہے؟ 'زمینی حقائق' (   ground realities )سےخود  خوف زدہ ہو کر  قوم کو

 شائد کوئی نیا سبق سیکھ چکے ہوں۔ خوف زدہ کرنے والے حکمران   

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا


 

               کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن

 

1۔ تعارف۔ کسے نہیں ہے تمنائے سروری، ماسوائے ایک انتہائی قلیل تعداد کے۔ یا یوں کہہ لیں رہبانیت کے قائل اور جوگی بن کے رہنے والے اعشاریہ 5 فیصد سے بھی کم ہونگے۔ خالقِ کائنات کا خلیفہ ہونا اور پھر اس کی زمین پر اس کی حکومت کے لیے جد و جہد نہ کرنا۔۔۔۔۔ یہ کیونکر ممکن ہے۔ ہاں مگر رب کو رب یا خداماننا کونسی مجبوری ہے! ایک خلقتِ خدا اُسی خدا کے وجود سے منکر ہے اور اربوں خدا واحد کے منکر ہیں۔۔۔۔ کویئ تو مجبوری ہو گی ان سب منکرین خدا کی!  یہ خاصہ اور اعزاز   اشرف المخلوقات کے پاس ہی ہو سکتا تھا۔

سبح لللہ ما فی السموات و الارض۔۔۔۔   57:1

ترجمہ:    تسبیبح کرتی ہے ہر چیز جو آسمانوں اور زمیں میں ہے۔۔۔۔

جنرل مرزا اسلم بیگ کی کتاب، 'اقتدار کی مجبوریاں'، زیر مطالعہ ہے اور وہی اس مضمون کی وجہ تسمیہ ہے۔ ان سے ملاقات بھی رہتی ہے۔ کیا کہوں یہ انکی کتاب پر تبصرہ ہے۔۔ شائد ہاں، شائد نہیں، یا ۔۔۔ یا یہ کہ جن کو اقتدار نے مجبور کر دیا۔۔۔ انکی مجبوریاں سمجھنے کی ایک کوشش ، اور یہی نہیں بلکہ اقتدار کو مقتدرہ کل سے ملنے والی اس امانت کو  نعمت الہی سمجھنے والوں کی فیصلوں سازی کیسے ہوتی ہے۔

2 ۔  مجبوریاں۔ مجبوری تو کسی کو کسی چیز کی بھی ہو سکتی ہے۔  مثلا:

ا۔ میں بھلا چنگا ہوں۔۔۔۔ زندگی میں مشکل کام بھی کیے، کھیل بھی کھیلے۔۔۔۔ کبھی ماونٹ ایورسٹ پر چڑھائی کو سوچا بھی نہیں۔ جن لوگوں نے اس چوٹی کو سر کیا۔۔۔۔ زندگی خطرے میں ٖڈال کر اس 29000 فٹ سے اوپر چوٹی کو سر کر کے چھوڑا ان کو کیا مجبوری تھی؟

ب۔ بیمار ۔۔۔۔ لمبا سفر نہیں کر پائے گا۔۔۔ مشقت کا کوئی کام نہیں کر پائے گا۔۔۔۔ بیمار کی مجبوری سمجھ آتی ہے۔

ج۔  جوبائڈن کی مجبوری۔۔۔۔ اردو نہیں بول پائے گا۔

د۔ مرد کی مجبوری۔۔۔۔ بچہ نہیں جن پائے گا۔ عورت کی مجبوری۔۔۔۔ داڑھی مونچھ نہیں رکھ پائے گی۔

آئیے دیکھتے ہیں، مصنف موصوف نے ص 18 پرکن مقتدر شخصیات کی کن مجبوریوں کا ذکر کیا ہے۔ [i]

 1  "جنرل ایوب خان کی مجبوری تھی کہ انہوں نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ "

2۔ "جنرل  یحییٰ کی مجبوری تھی کہ وہ 3 مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس کا اعلان کر کے اپنے وعدے سے منحرف ہو گئے۔ "

3۔  "جنرل ضیاء کی مجبوری تھی کہ  انہوں نے اپنے وعدے کے خلاف بھٹو کے پروانہء موت  پر دستخط کر دیئے۔"   (death warrant)

4۔ "جنرل پرویز مشرف کی مجبوری تھی کہ وہ غیروں کے ساتھ مل کر افغانستان کے خلاف جنگ میں شامل ہو گئے۔"

 

کچھ عجب نہیں کہ سوائے جرنیلوں کے 1969 سے لیکر اب تک کسی کی کوئی مجبوری نہیں تھی؟  یا جنرل اسلم بیگ نے صرف انہیں منتخب کیا؟ پہلی بات تو یہ کہ ان سب کو اقتدر میں آنے کی بھی تو کوئی مجبوری ہو گی! ورنہ کوئی قانونی راستہ تو نہ تھا۔  دوسرے یہ کہ کسی ائیر مارشل اور کسی ایڈمرل کو کبھی کوئی مجبور نہ ہوئی!

 

کہیئے مندرجہ ذیل کو کون سی مجبوری تھی، کچھ تو ہونگی۔

1۔  سابقہ چیف جسٹس گلگت بلتستان محترم شمیم رانا تین سال خاموش رہے پھر نومبر 21 میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی ایک غیر قانونی حرکت پر حلفیہ بیان دے دیا۔  ثاقب نثار نے یہ سب کچھ کیا تو، انکی کیا مجبوری تھی؟ 

اور اگر یہ سب جھوٹ ہے تو ملکی سطح پر یہ سب جھوٹ لکھنے، بولنے اور نشر کرنے کی کیا مجبوری تھی؟

 تقاضے۔۔۔ بہت سوچا کہ اس پیرائے کاعنوان اقتدار کے تقاضے لکھوں۔ لیکن زندگی کے بڑے بڑے فیصلے صرف صاحب اقتدار ہی ںہیں، بلکہ اور بہت سے بڑے لوگ اور بہت سارے تقاضوں کے زیر اثر کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ایسوں کو ہی تاریخ،  تاریخ ساز شخصیتوں کے نام سے یاد رکھتی ہے۔

جنرل ضیاء کے جہاز کو لودھراں کے قریب گِرے ہوئے دوسرا یا تیسرا دن تھا۔ کہ غلام اسحاق خان صاحب، کو جو اس وقت سینٹ کے چیرمین تھے، جی ایچ کیو  مدعو کیا گیا۔ راقم نے خود ان کو آتے اور پھر واپس جاتے دیکھا۔ میں اسی عمارت کے ملحقہ کمروں میں سے کچھ دور  اپنے دفتر میں تھا، جس میں جنرل مرزا اسلم بیگ بطوروائس چیف آف آرمی سٹاف بیٹھا کرتے تھے۔ اور یوں ملک کی باگ دوڑ آیئن کے تقاضوں کے مطابق چیرمین سینٹ کے حوالے کر دی گیئ۔ یہ  تھا ایک آئینی اور قانونی فیصلہ۔۔۔ اقتدار کی کوئی طلب یا کہہ لیں ہوس آڑے نہ آ سکی۔

آئیے تقاضوں کی کچھ تقسیم کرکے اورانہیں کچھ  ترتیب  دے کربڑے لوگوں کے بڑے فیصلوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تقاضہء بندگی۔  ہم سب اسی کے بندے ہیں، ہاں تو یہ کونسی بڑی یا انوکھی بات ہے۔ امام حسین بھی اسی ربِ کعبہ کے بندے تھے۔ کُل 72 لوگ تھے ان کے ساتھ۔ یقینا یہ نہ اقتدار کی مجبوری تھی اور نہ ہی تقاضہِ اقتدار۔ یہ اس رب ذوالجلام کی بندگی کا تقاضہ تھا کہ 1000 کے لشکر کے سامنے شدید تر نامساعد حالات میں ڈٹے رہے۔  پانی نہیں تھا تو کیا ہوا۔ اُن سب نے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ لیکن تقاضہِ بندگی کو شرمندہ نہیں ہونے دیا۔ ایسے ہوتے ہیں تاریخ ساز فیصلے اور یہ صرف تاریخ ساز لوگ ہی کر پاتے ہیں۔

تقاضہء محبت۔ کتاب مذکور کے ص 47-48 [ii] پر مصنف نے کرنل جمیل الرحمان کا ذکر کیا ہے۔ وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔ حج پر جانے کا مصمم  ارادہ کر چکے تھے۔ حج کا وقت قریب آیا تو روانگی کے لیے مصر ہو گئے، گرچہ انکی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ تمام گھر والوں نے مخالفت کی لیکن نہیں مانے۔ یہ بندہء خدا محبت دین و ایمان سے سرشار حج پر تشریف لے گئے۔  واپسی کے بعد چند دنوں میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

 

Dominion

Text Box: Dominionوفاء مقصد۔ ریڈکلف تقسیم ھند پراپنا نشتر چلا چکا تھا۔ سیاسی اورانتظامی امور کے لئے حکومت برطانیہ ایک کمزور مرکز کے تحت بھارت اور پاکستان کو دو                بنانے کا منصوبہ بنا چکی تھی۔ یہ صرف محمد علی جناح، صدر آل انڈیا مسلم لیگ ہی تھے جو ایک چٹان کی مانند واسرائے ، لارڈ ماوئنٹ بیٹن کی تمام تر کوششوں کے آگے  ڈٹ کرکھڑے تھے۔ ملاحظہ ہوں چند اقتسابات [iii] :

Mountbatten's efforts to persuade Jinnah
These excerpts make clear, firstly, that in April 1947 Mountbatten spent a lot of time and effort trying to persuade Jinnah that he would get a bigger Pakistan if he accepted a weak common center along with the rest of India, otherwise a sovereign Pakistan could include only Muslim

majority regions. Secondly, Jinnah was determined not to accept a common center and insisted on being given the bigger Pakistan anyway,

which would have had 45%age non-Muslim population.

 

A plausible explanation for Mountbatten's strenuous seemingly altruistic efforts with Jinnah in April 1947 is that Mountbatten was not really urging Jinnah to accept a united sovereign India with a weak center completely free of British presence. It is more likely that Mountbatten was urging acceptance of a united India with a weak center between two self-governing units Pakistan and "Hindustan" in an arrangement which would necessarily require the British to remain to hold the balance between the two quasi-states on matters of defence and sovereignty, especially since hundreds of princely states at that time still recognized the paramount of the British crown.

 

…Jinnah rejected any common arrangement with the rest of India until a bigger sovereign Pakistan became easier to attain because he believed that once Congress took over reins of power at center in any measure, Congress would succeed in torpedoing Pakistan even if the British remained in India in any capacity. The failure of the British to impose the Cabinet Mission Plan on Congress in 1946 was demonstrative of that.

 

کیا کہیئے کچھ کے تقاضئے بندگی ہیں، کچھ کےکہ لیے ایثار و وفا کے بندھن، کچھ اعلیٰ مقاصد کے دل و جان سے قیدی۔ اور کچھ اقتدار کو نعمت ربی جانتے ہوئے اس زمین پر اقتدار کو اللہ کی امانت سمجھتے ہیں۔ اور اس میں خیانت کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔

جنرل مشرف بھی مجبورو ں کی فہرست میں شامل تھے۔ آیئے ایک مختصر سا خلاصہ تاریخ کے اوراق کی نظر کر دیں۔ آج 2001ء میں 20 سال پیچھے مڑ کر  دیکھتے ہیں۔

امریکہ نے سات شرائط رکھیں۔ جو کہ پاکستان کے آخری ڈکٹیڑ نے بغیر کسی اسمبلی میں زیر بحث لائے،  بغیر کسی عوامی نمائندہ ادارے سے مشورہ کیے من و عن مان لیں۔۔۔ اور یوں خود امریکہ کو بھی  اپنی ذہنی عاجزی اور مجبوری سے حیران کر دیا۔ یہ تمام شرائط کتاب مذکورہ کے ص 224 پر درج ہیں۔ [iv]  غیر قانونی اور غیر آئینی حاکم سے اصولی فیصلہ عبث تھا اور رہے گا۔  جنرل بیگ لکھتے ہیں:

"23 ستمبر کا دن تھا۔۔۔میں نے عرض کی: آپ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بدترین فیصلہ ہے۔ جس کی منطق ہے نہ جواز اور نہ کسی قانون کے تحت اسے درست کہا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے کے نتائج پاکستان کی سلامتی کے لئے بہت مہلک ثابت ہو نگے۔ ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف غیروں کے ساتھ مل کر جنگ میں شامل ہو جانا بے غیرتی ہے۔ "[v]

"مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں موجود آپ تمام حضرات کی یہ سوچ ہے کہ طالبان ہار جائیں گے' یہ غلط ہے۔ طالبان جیتیں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ہاریں گے' جس طرح سویٹ یونین ہارا تھا' لوگ ہنس پڑے۔ " [vi]

آزادی کے متوالوں کی مجبوریاں۔  آئیے خلاصہ سے پہلے مردان حرُ ، جو اپنی روح اور جسم، سوچ اور سمجھ  یعنی ہر لحاظ سے آزادی کو سمجھتے ہیں اور اسکے حقیقی قدردان ہیں ان کی کیا 'مجبوریاں' ہوتی ہیں۔

2003 میں جنرل بیگ کی ملاقات جلال الدین حقانی سے، جنرل حمید گل کے گھر پر ہوئی۔ جنرل بیگ کے استسفار پر کہ امریکہ کے قبضے کے بعد آپکا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ مندرجہ ذیل جواب ملا: " ھم نے مجاہدین کے ساتھ اپنے روابط مضبوط کر لئے ہیں۔ اور بہت جلد دونوں مل کر جنگ کا آغاز کریں گے۔ " [vii]

جنرل بیگ نے یہی سوال اور اپنی تمام تر توجیہات اور خدشات کے ساتھ بذریعہ جلال الدین حقانی کے، ملا عمر کو بھیجوا دیا۔ اور جواب کی درخواست کی۔ دو ماہ بعد جواب موصول ہوا۔ جواب ملاحظہ ہو۔ 'اقتباسات')  

" ہماری  قومی روایات قابض طاقتوں کے ایجنڈے پرعمل کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔۔۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کی مکمل آزادی تک جنگ جاری رکھیں گے۔،  اب ہم امریکہ پاکستان کے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ ۔۔۔ اس جنگ میں پاکستان ہمارے دشمنوں کا اتحادی اور شراکت دار ہے۔ ۔۔۔" [viii]

خلاصہ۔  تو یہ ہے اک داستان حریت اور قصہ یا قضیہِ غلامی (مجبوری) کا تقابلی جائزہ۔ کچھ کے لئے اقتدار ایک امانت ربی، ایک عظیم اور مقدس ذمہ داری ہوتی ہے اور اس کے ساتھ انصاف کرنے لئے وہ اپنی جان کو پیش کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔

اے وطن پیارے وطن  پاک وطن  پاک وطن

تجھ سے ہے میری تمناوں کی دنیا پر نور

کیا آج 2021ء میں 29 فروری 2020 کا معاھدہ  اور 15 اگست 2021ء کو کابل پر طالبان کا  

بواپسی قبضہ مجبوروں کو کوئی پیغام دے رہا ہے؟ 'زمینی حقائق' (                  )سےخود  خوف زدہ ہو کر  قوم کو

 شائد کوئی نیا سبق سیکھ چکے ہوں۔ خوف زدہ کرنے والے حکمران   

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

         

کیا امام حسئن ہمارے صاحب اقتدار  اور رہنماوں کے لئے کوئی پیغام نہیں چھوڑ کر گئے تھے؟

خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے!

 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

  

 


[i] ص 18 اقتدار کی مجبوریاں۔ ، جنرل مرزا سلم بیگ 2021

[ii]  ص47-48  ایذا  

[iii] Mountbatten and Jinnah negotiations on Pakistan April-July 1947

   Extra (6B) April-July 1947  Negotiations on Pakistan between Mountbatten and Jinnah

 

[iv] ص 224 ایذا

[v] ص 223ایذا

[vi]  ایذا

[vii] ص 225 ایذا

[viii]    ص 225-226