نیلے پانیوں کے کنارے
Written By : Dr. Hasan Yaser MalikIt is a travelogue written by Dr. Hasan Y Malik. It is a fasciating story of the northern areas of Paksitan. A bewitching description of travel to Swat from Islamabad to Malam Jabba and Aashoo valley.
نیلے پانیوں کے کنارے
صبح جب نیلے پانیوں کی جانب سفر شروع کیا تو اللہ تعا لیٰ نے نیلگوں آسمان سے پانی برسانا شروع کر دیا جسکی وجہ سے ہماری توجہ راستے سے زیادہ گاڑی کے شیشے پہ اُبھرتی اور پھیلتی ہوئی دُھند کی طرف مبذول رہی ۔ اِسی کشمکش میں خیال آیا کہ موسمیاتی حالات کے مطابق راستے اور منزل کے بارش کے حد درجہ اِمکانات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے خُوشگوار موسم کی دُعا تو رات کو سفر سے پہلے ہی کر لی تھی پھر شیشے پہ اتنی دُھند کیوں؟ اس سے پہلے کہ شیطان اور بہکاتا یاد آیا کہ "کیپٹن کرنل شیر خان نشانِ حیدر" اِنٹرچینج تک دُعا میں رم جھم کی کُنجائش رکھی تھی ۔ اِسی اثناء میں ماہ نور یاسر نے اپنا موبائل فون میرے کان کے قریب لا کر گوگل کی مدد سے گاڑی کے شیشے پر موجود دُھند کو قابو میں لانے کی ہدایات سُنائیں جو کہ پُر اثر ثابت ہوئیں ۔ ابھی دُھند کا مسئلہ حل ہواہی تھا اچانک نظر آیا کہ ڈرائیور سائیڈ والے وائپر کے بلیڈ کا ٹکڑا اپنے جسم سے جُدا ہو چکا ہے ۔ اِس مسئلے کا ادراک ہوتے ہی سب سے پہلے خیال میں ڈرائیور کی غلطی نظر آئی جس نے صبح صبح گاڑی کی مکمل فِٹنس کی یقین دھانی کرائی تھی لیکن اُسی لمحے تصدیق نہ کرنے کی اپنی غلطی کا بھی احساس ہوا ۔ اِس بات کی اطلاع فون پر اگلی گاڑی میں رَواں ٹرپ لیڈر کرنل آصف محمود (مُخلص اور انسان دوست شخصیت) کو دی جس پر اُنہوں نے ہدایت دی کہ پشاور موٹر وے پر واقع ’’ہکلا‘‘ریسٹ ایریا پہنچ کر مدد حاصل کی جائے گی ۔ ریسٹ ایریا میں میرے پٹھان مستری دوست نے چستی اور خندہ پیشانی سے ربر نکالنے کے بجائے پُورا وائپر نکالا جس سے مجھے اُنکی وائپر ربر لگانے کی مہارت کا اندازہ ہوگیا جو کہ دُرست ثابت ہوا اور اُس کے نتیجے میں مستری وہ کام آدھے گھنٹے میں بھی نہ کر پائے جو دو یا تین منٹ میں ہوجانا چائیے تھا ۔ اِس ناکامی کے احساس کو خوشگوار کامیابی کے احساس میں بدلنے کیلئے ہم سب نے اگلے سفر کیلئے تازہ دم ہونے کے آپشن کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور کٹے ہوئے وائپر کے ساتھ ہی سفر جاری رکھا ۔ خوشی اِس بات پہ ہوئی کہ حسن ابدال انٹر چینج سے پہلے ہی رِم جھم بھی رُک گئی اور میں نے اچھے مسلمان کی طرح وائپر کی تبدیلی کی ناکامی کو بھی اللہ تعالیٰ کی بہتری گردان لیا ۔ سفر کے شروع سے لے کر اختتام تک سب سے زیادہ میری نظریں جس کی متلاشی تھیں وہ حروف اور گنتی کے الفاظ کے مجموعہ اے بی وائے ۳۹۹ تھے۔ جو کہ ٹِرپ لیڈر کی سفید کار پر لکھے ہوئے تھے۔ نیلے پانیوں کے کنارے کا سفر چونکہ ۸ ستمبر ۲۰۲۱ میں شروع ہوا تھا۔ اِسلئے موسم کے لحاظ سے دریائے سندھ کو عبور کرتے ہوئے اباسین کے پانی کو نیلگوں ہی پایا ۔ زندگی میں ایسا صرف دوسری بار ہوا تھا کہ میں نے دریائے سندھ کو موٹروے پر عبور کیا تھا۔ اِس تصور میں میں نے ہمیشہ کی طرح اپنے آپ کو اٹک خورد میں دریائے سِندھ کے پُل پر پایا ۔ موٹروے کے پُل پر مجھے دریائے سندھ میں وہ جوش ولولہ نظر نہ آیا جو اٹک خورد میں محسوس ہوتا تھا ۔ میں نے اِسکی وجہ دریائے کابل کی غیر موجودگی کو ہی جانا اوراسی وجہ سے ٹرپ لیڈر نے وہاں رُک کر فوٹو بنانے کو کوئی اہمیت نہ دی ۔ میری اکلوتی بیگم صاحبہ کی گاڑی کی رفتار کو قابو میں رکھنے کی ہدایت اور سیکنڈ سیٹر ہونے کے باوجود ایک دفعہ پھر میں اے بی وائے ۳۹۹ کا متلاشی بن گیا۔ بے شک بارش کے باوجود بہت دُور کے نظارے بھی حدِ نگاہ میں تھے لیکن پتہ نہیں باقی گاڑی والوں کو کیا جلدی تھی کہ وہ مُجھے دائیں بائیں نظاروں کو دیکھنے کا زیادہ موقع نہیں دے رہے تھے اس لیے پچھلی سیٹ پر سائیڈز میں بیٹھی دو بیٹیوں اور سیکنڈ سیٹ پر براجمان بیگم صاحبہ نے کیمرا کی مدد سے میرے لیے تصویریں بناتے ہوئے مجھے سڑک پر توجہ مرکوزرکھنے کی ہدایت دیتے ہوئے اِس بات کا احساس دلایا کہ وہ کسی بھی وقت لاہور میں موجود میری والدہ صاحبہ کو فون پر گاڑی کی تیز رفتاری کی اِطلاع دے سکتی ہیں ۔ میں مشکور ہوں ٹرپ لیڈر کا جنہوں نے حسب معمول گاڑی کو ہمیشہ حد رفتار سے تھوڑا اُوپر ہی رواں رکھا جسکی وجہ سے مجبوراَ مجھے بھی ایسا ہی کرنا پڑا۔ مجھے جلدی تھی کہ میں جلد از جلد ''کیپٹن کرنل شیر خان شہید'' کو خراج عقیدت پیش کروں ۔ کیپٹن کرنل خان شہید انٹر چینج سے سوات کی طرف ہمارے ٹرپ لیڈر کی فیملی کا سفر پہلی مرتبہ نہ تھا اسلئے انہوں نے کہیں رُک کر فوٹو گرافی کرنے کو اہم نہ جانا اور جسکی وجہ سے ہم کسی پہاڑ ،پیپل کے جنگل یاسرنگ کے ساتھ کہیں تصویر نہ بنا سکے اور نہ ہی ایمان یاسراپنے ڈی ایس ایل آر کیمرہ جو کہ اِس ٹرپ کیلئے حاصل کیا گیا تھا اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔
"چکدرہ" کے قریب پیپل کے گھنے جنگل مجھے ۱۹۸۵ کی یاد دلاتے رہے کہ جب ہم اپنے والد بریگیڈیئر حسن اختر ملک (مرحوم) کے ساتھ پہلی مرتبہ نوشہرہ چھاونی سے نیلے رنگ کی جیپ میں سوات آئے تھے ۔ ماضی کے سفر جس میں میں نے اپنے والد، والدہ اور بھائی (حسن شیر یار ملک ) کی یاد میں محورہا ۔ اِس وقت میری نگاہ سامنے تھی جبکہ میری بیگم صاحبہ اور بیٹیاں مناظرِ قدرت سے لطف اندوز ہو رہی تھیں یا اُن کو قلمبند کرنے میں مصروف تھیں اسلئے مجھے چکدرہ انٹر چینج پر پہنچ کر پتا چلا کہ ہم سلور رنگ کی اے بی وائے ۳۹۹ سے ٹکرانے والے تھے ۔ بے شک اے بی کے ۰۹۱ پیچھے تھی لیکن ذمہ داری تو پھر بھی ٹرپ لیڈر کی تھی ویسے بھی صاحب توغلط ہو ہی نہیں سکتے ۔ چکدرہ سے شمال مشرق کی طرف سفر کے دوران سڑک کے دونوں جانب لگے پےپل کے درخت اور اُن کے ساتھ بہتا چشمہ، بائیں تھوڑا دور نیلے پانی والے دریائے سوات ، باغات اور پہاڑ ۱۹۸۵کی یادیں ایسے سحر انداز ہوئیں کہ وہ پےپل کے درخت جو بٹ خیلہ سے کم ہونا شروع ہوئے تھے اور قبضہ تھانہ تک ختم ہوگئے تھے میرے ساتھ ساتھ برےکوٹ تک رہے ۔بریکوٹ سے مینگورہ پہنچنے کیلئے دوراستے ہیں ۔ ایک دریائے سوات کی دائیں اور دوسرا دریائے سوا ت کے بائیں جانب خواتین کی ہمراہی کے مد نظر ٹرپ لیڈر نے پرانے راستے کو اپنانے کا فیصلہ کیا ۔ راستے کی تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد ہم عازم سفر ہوئے ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ دریا کے کنارے رءو (گنے کا رس) اور چھلی والا نظر آیا ۔ دوپہر ہوچکی تھی اور بھوک بھی چمک رہی تھی تو اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ ہلکا پُھلکا کھا لیا جائے کیونکہ لنچ مینگورہ میں کرنا تھا ۔ خواتین کی دُگنی تعداد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مونث/ چھلیاں کھائی گئیں اور مذکر/ بھٹوں کو چھوڑ دیا گیا اور سفر کو جاری رکھتے ہوئے ہم مینگورہ پہنچ گئے ۔ یہ تو وہ مینگورہ ہی نہیں تھا جہاں سے میں 35سال پہلے دو تین مکانون اور دُکانوں سے گزرا تھا ۔ یہ والا مینگورہ تو دریائے سوات اور پہاڑی سلسلوں کے درمیان ایک پرویا ہوا پورا شہر تھا جو کہ ایک تنگ گزرگاہ بن چکا ہے۔ میں سلام پیش کرتا ہوں۔ خیبرپختونخواہ کی ٹریفک پولیس کو جو کہ نہایت تندہی اور فرض شناسی سے ٹریفک کو رواں دواں رکھے ہوئے تھے ۔ اگر ٹرک آپ کو لیڈ کر رہے ہیں تو یہ آپ کی غلطی ہے ۔ رکشہ اور سوزوکی پک اپ کی اچانک بغیر انڈیکیٹر یُو ٹرن لینا اُن ہی کی مہارت کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں اور سیاح ڈرائیور حضرات کو اِس مہارت سے بچنا چائیے ۔ مینگورہ میں بزرگ تو کیا بچے بھی اتنے بہادر ہیں کہ ایک دم گاڑی کے آگے آکر آپ کا ڈرائیونگ ٹیسٹ لیتے رہتے ہیں اور آپکی ناراضگی اور جُرات کے اظہار کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ ایسا لگتا تھا کہ ہماری گاڑی راجہ بازار راولپنڈی یا بھٹہ چوک لاہور سے گزر رہی ہے ۔ جب پولیس والے نے اطلاع دی کہ کورونا بیماری کے باعث تمام ریسٹورانٹ بند ہیں تو بھوک کے ساتھ ساتھ تھکاوٹ کا احساس جاگنے لگا ۔ چنانچہ میرے پُر زور اِصرار پر فضا گھٹ کے مقام پر نیلے دریائے سوات کے کنارے فروٹس کھانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ میرا مقصد تو دریائے سوات میں تیراکی کرنے کا تھا اس لیے مجھے کھانے کی پریشانی نہیں تھی لیکن ٹرپ لیڈر نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے مچھلی والے کو ڈھونڈ لیا پھر مجھ سے مشورہ کیا ۔ میرا دھیان نیلے پانی کی طرف تھا اِس لیے میں نے دونوں کانوں سے مشورہ سنتے ہوئے اُن کی ہاں میں ہاں ملائی اور دریا کی طرف بھاگ پڑا اور اس سے پہلے کہ کوئی ممانعت یا ہدایات کے بارے میں بتاتا میں جوش کے ساتھ نیلے پانی میں اُتر گیا۔
جب میں نے گردونواح کا جائزہ لیا تو "فضا گھٹ" کی لوکیشن، ڈ ولی (دریا پار کرنے کیلئے لوکل چیئرلفٹ ) اور کچھ کھیت دیکھ کر یاد آیا کہ یہ تو وہی جگہ ہے جہاں میں پہلی دفعہ اپنے والد مرحوم کے ساتھ آیا تھا جنہوں نے میری تیراکی/ کی بہت حوصلہ افزائی کی تھی اور یہیں پکنک کے دوران امی جان کے جہیز والے واٹر سیٹ کا ایک گلاس بھی دریا میں کھویا تھا ۔ یادوں سے نکل کر دیکھا کہ سمن یاسر کی قیادت میں ایمان آصف، احمد آصف، ماہ نور یاسر اور ایمان یاسر دریا کے کنارے پہنچ چکے تھے جبکہ ٹرپ لیڈر نہایت مخلصانہ طور پر کھانے پکوانے کی ذمہ داری سر انجام دیتے رہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم مچھلی کھانے کے بعد وہاں سے روانہ ہوتے، ڈھول والوں نے ہمیں الودائی سلام پیش کیا جس سے بچے بہت محظوظ ہوئے ۔ ہماری اگلی منزل’’ ملم جبہ ‘‘جسے عُرف عام میں ’’ مالم جبہ ‘‘کہتے تھے اور ہم وہاں نماز عصر تک پہنچنا چاہتے تھے تاکہ نہ صرف ملم جبہ کے حسین نظاروں سے زیادہ سے زیادہ محظوظ ہوسکیں بلکہ بچوں کی خواہش کے مطابق کرکٹ بھی کھیل سکیں ۔ ملم جبہ پہنچنے کیلئے ہم پہلے ’’منگلور‘‘ پہنچے جہاں سے شمال کی جانب تین گھنٹے کے فاصلے پر کالام ہے جو کہ ہماری آخری منزل تھی اور منگور ہ سے مشرق کی جانب ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ۹۱۹۹ فٹ بلندی پر "ملم جبہ" ہے۔
اِس سے پہلے کہ "ملم جبہ" کی بلندیوں کی جانب عازمِ سفر ہوں کچھ سوات کی تاریخ اور جغرافیہ کے بارے میں بات ہوجائے ۔ جغرافیائی اعتبار سے سوات کوہ ہندوکش سلسلے کی ایک وادی ہے جو دریائے سوات کے دونوں اطراف جنوب میں چکدرہ سے شمال میں شندور تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی لمبائی ۱۵۰ کلومیٹر ہے جب کہ اس کا کُل رقبہ ۵۳۳۷ مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ حسین وادی بہت سی نیلگوں جھیلوں ، جنگلوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ وادی سوات کے مشرق میں کوہستان کی مشہور علاقے ’’بشام اور پتن ‘‘واقع ہیں اور اس کے مغرب میں ’’ دیرروش اور کمراٹ‘‘ جیسی حسین وادیاں موجود ہیں ۔ تاریخی لحاظ سے ۲۰۰۰ سال پہلے اس وادی کا نام عدیانہ تھا جو بعد میں " سُواستو " بھی کہلایا ۔ ۱۰۰۱ سنہ عیسوی میں افغانستان سے آئے ہوئے محمود غزنوی نے اس پر قبضہ کیا ۔ ۱۹۱۹ میں یوسفزئی ریاست سوات کی بنیاد رکھی گئی اور اِسطرح میاں گُل عبد الودود بادشاہ صاحب وادی سوات کے پہلے والی مقرر ہوئے ۔ ۱۹۶۹ میں اِس علاقے کے غیور مسلمانوں اور والی سوات جہانزیب صاحب نے مغربی پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیا ۔ وادی سوات کا دارا لخافہ سیدو شریف تھا جہاں پر ابھی ایک ہوائی اڈہ بھی قائم ہے جو کہ پشاور سے آدھے گھنٹے کی اُڑان پر واقع ہے ۔ ’’سیدوشریف ‘‘سے’’ ملم جبہ‘‘ کا فاصلہ ۵۰ کلومیٹر ہے ۔ یہ جان کر کہ’’ ملم جبہ‘‘ کو وادی سوات میں گرمیوں کے جائے دربار ہونے کی حیثیت حاصل ہے ملم جبہ میں ہماری دلچسپی اور بڑھ گئی ۔ انواع و اقسام کی گاڑیوں کو اُوپر جاتے ہوئے دیکھ کر یہ اُمید پیدا ہوئی کہ اے بی کے ۰۹۱ جو کہ ۲۰۱۶ ماڈل جی ایل آئی کار آسانی سے ملم جبہ پہنچ جائے گی ۔ ملم جبہ کی طرف روانہ ہوئے تو دائیں طرف ایک نالہ بہہ رہا تھا جس میں پانی تو کم تھا لیکن پتھر بہت بڑے بڑے تھے اور کنارے کے ساتھ والے پتھر تو اتنے بڑے تھے کہ اُن پر لمبے لمبے درخت بھی اُگے ہوئے تھے ۔ جُوں جُوں ہم اُونچے ہو رہے تھے نالہ گہرا ہوتا جا رہا تھا راستے میں سڑک کے کنارے درختوں پر آلو بخارے اور سیب دیکھ کر خوشبو اور ذائقے کے احساسات اُجاگر ہوئے مگر تھوڑی دیر کے بعد جب یہ پتہ چلا کہ نہ وہ آلو بخارے ہیں اور نہ ہی سیب بلکہ وہ تو جاپانی فروٹ ہیں تو حیرت کا احساس باقی دو احساسات پر حاوی ہوگیا ۔ تازہ ہوا کے جھونکے اور بادلوں کی ٹکڑیاں سفر کو مزید محسور کُن بنا رہی تھیں۔ سڑک کی گہرائی والی سائید پر نیلم ویلی کے برعکس پروٹیکشن وال موجود تھی جسکی وجہ سے میری فیملی آپنے آپ کو کافی محفوظ سمجھ رہی تھی اور میری بیگم صاحبہ کو نیچے وادی کے مناظر کے دیکھنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ آدھے راستے میں ایک گاءوں کو ایسے منصوبہ بندی سے رنگ کیا گیا تھا کہ وہ سبز درختوں میں ایک’’ قوس قزاح ‘‘کی طرح نظر آرہا تھا ۔ چار باغ کے پائین فارسٹ میں رنگین چار پائیاں اور جھنڈیاں لگا کر چھوٹی چھوٹی دکانوں کو سیاحوں کیلئے خوب سجایا گیا تھا جو کہ سبز ئے کے ساتھ ساتھ خوشگوار مناظر پیش کر رہی تھیں ۔ راستے میں چھوٹے بچوں کی ٹولیوں سے ہم نے تازہ ناشپاتی اور تازہ تازہ جامنی رنگ کے انجیر بھی خریدے جو ذائقے میں میٹھے اور رَس سے بھر پور تھے ۔ سیلفی اسٹک کو مدینہ ہوٹل کی پُر خطر سیڑھیوں کو سر کر کے چھت پر جا کر استعمال کیا گیا جو کہ سفر میں آخری استعمال ثابت ہوا۔ منزل کے قریب بادلوں نے ہمیں گھیر لیا ۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ برس نہیں رہے تھے بلکہ صرف اور صرف ٹھنڈک اور تازگی کا احساس دلا رہے تھے ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اِرد گرد اِن بادلوں کے سوا کچھ اور موجود نہیں ہے ،سوائے بادلوں کے ۔ بعد میں جب بادل چھٹنے شروع ہوئے تو ملم جبہ کا دلفریب قدرتی حسن نکھر کر سامنے آگیا سستانے کے بعد ہم لوگ کرکٹ اور باسکٹ بال سے بھی محظوظ ہوئے۔ بیٹرٹومارو کا تازہ شمارہ پڑھ رہا تھا کہ سب کے اصرار پر ہم سیر کیلئے روانہ ہوگئے ۔ سورج ڈھل رہا تھا، بازاراور ہوٹلز نہ صرف خوبصورت و رنگین منظر پیش کر رہے تھے. PC ملم جبہ کو دیکھ کر خوشی کا احساس بھی ہوا جو کہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا ۔ اسے دیکھ کر اسلام آباد کی روشنیاں یاد آگئیں جو کہ ہم سے کوسوں دور تھیں ۔ قریب ہی موجود سکی ریزارٹ اور چیئر لفٹ ایک دلکش منظر پیش کر رہے تھے۔ مجھے یہ پڑھ کہ حیرت ہوئی کہ سب سے پہلے آسٹریلوی ایمبسڈر جو کہ والیِ سوات کے دوست تھے انہوں نے ۱۹۶۲ میں سکی ریزارٹ کا آئیڈیا دیا تھا۔ گیسٹ روم کی انتظامیہ نے رات کے کھانے میں باربی کیو کا آپشن دے کر ہماری بھوک اور خوشی میں اضافہ کر دیا ۔ ابھی ہم باربی کیو کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ انتظامیہ نے باہر لان میں آگ کا آلاءو جلا کر ہمیں رات دیر تک باہربیٹھنے پر مجبور کر دیا۔
صبح ناشتے سے پہلے ہی گھومنے اور تصویریں بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ صبح کی روشنی میں درختوں پر لگے آخروٹ بہت دلکش لگ رہےتھے ۔ ہمارے ٹرپ لیڈر تو پہلے سے ہی آخروٹ شناس تھے لیکن ہمارا یہ پہلا موقع تھا جو کہ میں کھونا نہیں چاہتا تھا ۔ اس لیے میں نے ۹ ستمبر۲۰۲۱ کی صبح پہلی دفعہ خود آخروٹ توڑ کر اپنا ریکارڈ قائم کر لیا ۔ ’’ملم جبہ ‘‘کے دلفریب نظاروں میں ایک سماجی و معاشی منظر بھی موجود تھا ۔ "ملم جبہ" پی سی جیسی پُر شکوہ عمارت کے پہلو میں پہاڑی پتھروں سے بنا ایک چھوٹا سا مکان بہت سارے سماجی پہلو کی طرف تو جہ مبذول کروا رہا تھا ۔ پتہ نہیں چئیر لفٹ کیوں بند تھی اگر بتائی گئی بارش وجہ تھی تو پھر تو شاید زیادہ تر بند ہی رہتے ہونگے ۔ چیئر لفٹ کے بند ہونے کے ملے جُلے رحجان اور ٹرپ لیڈر کے ٹریکنگ کی خواہش جو کہ ایک حُکم کا درجہ رکھتی ہے اُس سے بچنے کی خوشی زیادہ حاوی رہی ۔ میں نے وقت ضائع نہ کیا اور مقامی لوگوں سے گپ شپ لگائی تو پتہ چلا کہ ملم نیچائی اور جبہ اونچائی کو کہتے ہیں ۔ گوگل سے تصدیق کرنا چاہی تو گوگل نے منہ چڑھا دیا ۔ اگر قارئین اور ناقدین میں سے کوئی جانتا ہو تو ضرور بتائیں ۔واپسی کا سفر وہی تھا لیکن دو واضع فرق تھے ۔ چونکہ کار پہاڑ والی سائیڈ پر تھی اس لئے بیگم صاحبہ بہت خوش اور پُر اعتماد تھیں ۔ دوسرا یہ کہ اُوپر جاتے ہوئے میرا بایاں پاءوں کار کے کلچ پیڈل سے مُنسلک رہا اور نیچے آتے ہوئے دائیں پاءوں بریک پیڈل سے ۔ دوپہر کو ہم واپس منگلور پہنچے اور بڑی مہارت سے منگلور کی ٹریفک کو عبور کرتے ہوئے شمال کی جانب اپنی آخری منزل کالام کیلئے عازم سفر ہوئے ۔ گو کہ مدین میں بھی ٹریفک زیادہ تھی لیکن جو مہارت میں مینگورہ اور خوازہ خیلہ میں حاصل کر چکا تھا اُسکی وجہ سے مدین سے گزرنے میں کوئی خاص دِقت نہیں ہوئی ۔ مدین سے گزرتے ہوئے دریائے سوات کا پُرانا لکڑی کا پُل دیکھ کر یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا لیکن ٹریفک پولیس والے کے بار بار آگے بڑھنے کے اشاروں نے موقع ضائع کر دیا ۔ مدین کراس کرنے کے بعد احساس پیدا ہوا کہ کار میں چوتھا گیئر بھی ہے ۔ ٹرپ لیڈر کی اے بی وائے ۳۹۹ چونکہ آٹومیٹک تھی اس لئے وہ اس فرحت بخش احساس سے دور رہے ۔ "بحرین مدین" کے شمال میں واقع ایک قصبہ ہے جس کی سب سے پیاری بات یہ تھی کہ وہاں پر ٹریفک کم اور سڑک کُھلی تھی جسکی وجہ سے بازار میں دریائے سوات کے کنارے تصویریں بنانے کا موقع مل گیا ۔ سفر میں ہم چونکہ دریا کے ساتھ ساتھ تھے اس لیے گہرائی میں ہونے کی وجہ سے مناظر قدرت سے زیادہ لطف اندوز نہ ہو پار رہے تھے ۔ کیدم کے مقام پر دریا کے اُوپر ایک لکڑی کا پُل ، ایک ڈولی اور دریائے سوات میں گِرتا ہوا پہاڑی نالہ دلکش منظر پیش کر رہا تھا ۔ دریائے سوات اور پہاڑی نالے کا سنگم مجھے اِس کا حصہ بننے سے نہ روک سکے ۔ دریائے سوات کا حصہ بنتے ہی مجھے اِس کے بارے میں تجسس ہوا کہ دریائے سوات کالام میں موجود مغربی دریائے گبرل اور مشرقی دریائے عوشو کے سنگم پر وجود میں آتا ہے اور ۲۴۰ کلومیٹر کا سفر طے کر کے چار سدہ کے مقام پر دریائے کابل کا حصہ بن کر اپنا رنگ کھونا شروع کر دیتا ہے اور قدرت کا خوبصورت نظام دیکھیں کہ اباسین اٹک خورد کے مقام پر دریائے کابل پر اثر انداز ہونا شروع کر دیتا ہے ۔ پہاڑی نالے کو مقامی نالہ کہنے سے بہتر ہے کہ اِ س کو کیدم کا نام دے دیا جائے ۔ "کیدم" اور" دریائے سوات" کا پانی ٹھنڈا ہونے کے علاوہ فرحت بخش بھی تھا ۔ پانی کا بہاءو تیز تھا لیکن گہرائی کم ہونے کی وجہ سے میں نے خوب تیراکی کی۔ آخر کار ٹرپ لیڈر کے کہنے پر خوب سے خوب ترکی تلاش میں ہم اُوپر سڑک پر آگئے۔ آتے ہوئے ٹرپ لیڈر کی خواہش پر لکڑی کے پُل پر اُن کی کیلئے تصویر بنائی جوکہ فیس بک پر ڈی پی موجود ہے ۔ اسریت ایک تنگ راستہ ہے جہاں پر دریا میں دو منزلہ ٹری ہاوٗس ہے۔ اس جگہ پر ہم نے دوپہر کا کھانا اُن چپل کبابوں کے ساتھ کھایا جو کہ ہم بریکوٹ سے ڈھونڈ رہے تھے ۔ اسریت سے جلد ہی ہم وادی کلام میں داخل ہوگئے ۔ کالام میں ہمارے گیسٹ رومز کی لوکیشن بہت شاندار تھی جو کہ گاہل نالے کے کنارے کالام کے جنوب مغربی پہاڑ پر واقع ہے۔
اِس مقام سے پوری وادی کالام، ملحقہ پہاڑی سلسلے نیلے دریائے سوات دریائے گرل اور "عوشو" جنگل کا حسین و دلکش منظر فریم میں مقید ہو جاتے ہیں ۔ وادی میں پھیلے رنگین مکانات اور مقامی بچوں کے کھیل اور عصر کی آذانوں کی آوازوں کے سحر میں بھی اپنا ہی مزہ تھا ۔ پورے دن میں صرف ایک ہی ذمہ داری تھی کہ شام کو امی جی کو خیریت سے آگاہ کر وں اور دن بھر کی تصویریں بھیج سکوں ۔ آپ یقین کریں کے اِس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ۳جی ٹیکنالوجی نے کبھی میرا ساتھ نہ چھوڑا ۔ وادی کبھی بادلوں سے خالی ہو جاتی اور کبھی بھر جاتی ۔ بہر حال بادل اپنا دلکش منظر پیش کرتے رہے ۔ میں یہ سوچتا رہا کہ رات کو کِس جگہ پر کتنی روشنیاں وادی کو جگمگا ئیں گی ۔ جب اندھیرا ہوا تو کئی رنگوں کی روشنیوں سے پوری وادی پُر نور ہوگئی ۔ جب بچے ۳جی تلاش رہے تھے اور خواتین کھانے کے بارے میں ہدایات دے رہی تھیں تو میں شمال میں شندور کی طرف پہاڑوں پر برف کوڈھونڈ رہا تھا ۔ نیم شب کی خامشی اور وادی کے رنگوں میں محو رہنے کے بعد کب نیند آگئی پتہ ہی نہ چلا
صبح جب کھڑکی سے باہردیکھا تو دور شمال میں پہاڑوں پر تازہ تازہ برف دیکھ کر ایک انجانی خوشی نے میرے اندر کو بھر دیا اور میں اپنی اِس خوشی میں سب کو شامل کرتا رہا ۔ اِس خوشی میں وادی ایبٹ آباد اور ٹھنڈا پانی پہاڑ کی برف بھی شامل ہے ۔ صبح ’’عوشو ‘‘جنگل کی سیر کیلئے روانہ ہوئے یہ ایک بہت گھنہ پائین فارسٹ ہے جوکہ تکون شکل میں دریائے گرل اور عوشو کے درمیان وادی کے شمال میں واقع ہے ۔ جنگل میں سڑک کنارے چھوٹے بڑے ٹینٹس پر مشتمل ہوٹلز موجود ہیں ۔ عوشو جنگل کی تمام تر خوبصورتی کے باوجود زمین پر سبزہ نہ تھا اور اُس کی وجہ ٹرپ لیڈر نے سورج کی روشنی کی بہت کم مقدار گھنے جنگل کی زمین تک پہنچنے کا بتایا ۔
''عوشو جنگل'' سے دو راستے نکلتے ہیں جن میں سے ایک مغرب کی جانب دریائے گرل کو عبور کرتے ہوئے وادی کمراٹ اور دیر کی طرف جاتا ہے اور دوسرا شمال مشرق میں دریائے عوشو کے کنارے ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر ''مہو ڈڈھن'' جھیل کی طرف جاتا ہے ۔ ٹرپ لیڈر نے چوہدری کمپس ( فوجی اصطلاح جس کامطلب مقامی لوگوں سے راستے کی رہنمائی کرنا ہے ) کے استعمال سے یہ فیصلہ کیا کہ سڑک/ دِگرگوں حالت کو دیکھتے ہوئے چھوٹا ’’مہوڈھنڈ ‘‘تک سیاحت کی جائے گی جو کہ آدھے گھنٹے کے فاصلے پر ہے ۔ِ اس مقام پر دریائے عوشو کو کنٹرول کر کے ایک چھوٹی سی جھیل بنائی گئی ہے جہاں سیاح آکر دریا اور ٹراءوٹ مچھلی سے لُطف اندوز ہو تے ہیں ۔ نیلگوں پانی اور خوبصورت نظارے دیکھ کر میں نے ایک بار پھر اِس خوبصورت دریا جو باقی لوگوں کیلئے ٹھنڈا اور تیز بھی تھا میں نے ڈائیو لگا دی اور خوب تیراکی کی۔
تھوڑی دیر بعد ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ اِس دفعہ بھی تیراکی کرنے والا میں اکیلا ہی تھا باقی سب تو صرف پاءوں ہی ٹھنڈے کر رہے تھے ۔ میں نے بہت کوشش کی کہ ٹرپ لیڈر بھی میرے ساتھ شامل ہوجائیں لیکن انہوں نے ٹراءوٹ مچھلی پکڑنے کی مہارت کا ثبوت پیش کیا۔ جال اور فشنگ راڈ کی مدد سے ۴عدد ٹراوٗٹ فش پکڑیں اور نہایت لذیذ طریقے سے گِرل کروائیں ۔ بچے بھی کشتی رانی اور نشانے بازی سے لُطف اندوز ہوئے ۔ میں نے گِرل فش اور گرم نان کی تصویر بنائی اور اپنے دوست میجر حنیف ملک کو جلانے کیلئے بھیج دی کیونکہ انہوں نے آخری موقع پر ٹرپ میں شامل ہونے سے ا نکارکر دیا تھا ۔ راستے میں ایک دفعہ پھر مذکر بھٹوں کا انتظار کرتے ہوئے قریبی مسجد میں عصر کی نماز ادا کی ۔
یو اے ای کی تختی پڑھ کر سمجھ نہ آیا کہ اِن ریاستوں کو اسلام سے کتنی محبت ہے اور اس کا اظہاروہ وطن عزیز ہی میں کیوں کرتے ہیں ۔ گاءوں کے قبرستان میں دیکھا کہ قبروں کو لکڑیوں کے کریٹ (Wooden Box) میں الگ الگ بند کر دیا گیا تھا ۔ واپسی پر کالام شہر کا کُھلا پن اور کار پارکنگ کی آسانی کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کو شاپنگ کا موقع دیا گیا جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور بھابھی صاحبہ کی پشتو کی وجہ سے کوالٹی کے علاوہ قیمتیں بھی مُناسب کروانے میں مدد مل گئی ۔ ویسے توکار میں پٹرول بھروانے کا ذکر نہ کرتا لیکن تین وجوہات کی وجہ سے ایسا کرنا ضروری ہے نمبرایک تو یہ کہ آنے والے سیاحوں کو یہ پتہ چل سکے کہ کالام تک ۳۸ لیٹر پٹرول استعمال ہوتا ہے ۔ دوسری اطلاع بھی آنے والے سیاحوں کیلئے اہم ہے جو کہ پٹرول ڈالنے والے کارند ے نے بتائی کہ یہ شہر کا واحد پٹرول پمپ ہے کہ جب سیاحوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے تو پٹرول کی قیمت ایک ہزار فی لیٹر تک بڑھ جاتی ہے اور جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ اِس قیمت کیلئے سو اچھے کام کرنا پڑیں گے اور جن کو نہیں پتہ وہ کرنل بختیار سے پُوچھ سکتے ہیں ۔ تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ کرنل بختیار صاحب نے سفرنامہ لکھنے کے آئیڈیے پر تعریف کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ''پھر ہم نے پٹرول ڈلوایا'' جیسی فضول باتیں تحریر نہ کروں کیونکہ اُن کے رسالے میں فالتو جگہ لے گا ۔ اب قارئین پٹرول سے متعلق معلومات کی سماجی ، اقتصادی ، منصوبہ ساز ، علمی اور حیران کُن اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ عصر کے وقت ہم " گاہل " روڈ پر پہنچ چکے تھے اور گیسٹ روم سے چند سو گز کے فاصلے پر احمد آصف نے سیب کے درختوں سے سیب اکٹھے کئے اور ماہ نور یاسر نے چھوٹے چھوٹے بجے اکٹھے کئے اور ان سے گپ شپ لگائی۔ تھوڑی دیر ستانے کے بعد پہاڑی نالے کی طرف سیر کیلئے روانہ ہوئے ۔ دریائے سوات کے بہتے ہوئے پانی کو دیکھ کر وسٹن چرچل کی طرح میری بیگم نے بھی کہا کہ اس پاک دھرتی پہ اللہ پاک کا کتنا احسانِ عظیم ہے اور ہم کتنے وسائل ضائع کر رہے ہیں ۔ جب ہ میں معلوم ہوا کہ صرف ''گاہل'' نالے پر بنائی گئی ٹربائن سے پوری وادِی کالام کو بجلی ملتی ہے تو بہت خوشی بھی ہوئی اور دریا کا پانی ضائع ہونے کا دُکھ بھی ہوا۔
(Electric Turbine)
اللہ پاک میری عرض پاک کو مخلص لیڈر عطا کرے (آمین) ۔ رات کو ٹرپ لیڈر کے ساتھ واپسی کے سفر کی منصوبہ بندی کی ۔ صبح سب خواتین نئے کپڑے پہن کر اور میک اپ کر کے کار میں ہی سوگئیں میں اور ٹرپ لیڈر ڈرائیوکرتے رہے ۔ واپسی پر یہ احساس ہوا کہ سڑک بہت اچھی ہے ۔ پہاڑی نالوں کو پار کرنے کیلئے ۶ یا ۷ پُل زیر تعمیر ہیں جو کہ اُمید ہے کہ بہت جلد مکمل ہو جائیں گے۔سوات میں بہت زیادہ تعداد نان کسٹم پیڈ اور آن ریجسٹرڈ گاڑیوں کی ہے ۔ یہ تمام گاڑیاں نہایت سستی ہیں لیکن صرف سوات میں ہی استعمال ہو سکتی ہیں ۔آن ریجسٹرڈ گاڑیوں کی سہولت تو ۱۹۶۹ میں سوات کی پاکستان کے الحاق کے وقت دی گئی کیونکہ یہاں پر پہاڑوں اور دریاءوں کی وجہ سے نہ ہی قابل کاشت زمین ہے اور نہ ہی انڈسٹری ہے۔ واپسی پر مینگورہ شہر کراس کرنے کے بعد جب ٹریفک کم ہوگئی تو بریکوٹ کے مقام پر چائے پی گئی ۔ ’’ چکدرہ‘‘ کے قریب سڑک کے کنارے پیپل کے درخت دلکش مناظر پیش کر رہے تھے ۔ واپسی پرا باسین تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہ لگا اور اباسین کا پُل کراس کرتے ہوئے یہ خیال آیا کہ نیلے پانی اب بہت دور رہ گئے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد ''غازی بھروتھہ'' نہر کے سبزی مائل نیلگوں پانی کو دیکھ کر ایک دفعہ پھر تازگی کا احساس ہوا ۔ اپنے سفر کے خواشگواری کے احساس کو آخرتک شامل حال رکھتے ہوئے گلبرگ گرین اور نیول انکریج سے ہوتے ہوئے/ میں داخل ہوئے تو اُس وقت عصر کی آذان ہو رہی تھی ۔ چونکہ راستے میں دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا اسلئے شام کا کھانا باہر سے کھایا گیا اور کمال مہارت سے میری بیگم صاحبہ نے وہ بل بھی سفری خرچے میں شامل کر دیا ۔ اُسی دن ۱۱ ستمبر کو ماہ نور یاسر نے تمام ویڈیوز اور تصاویر کی مدد سے ایک کولاج بنایا اور اس میں دو گانوں (واسوات گلونہ داہ پخیر راغلے) اور (پہاڑوں کی قسم) کا میوزک شامل کرکے بہت خوبصورت ویڈیو تیار کی ۔ جسکو دیکھ کر پتا نہیں لوگوں نے کیا کیا لیکن خبر ملی کہ اگلے روز میرے دوست میجر حنیف ملک جوکسی مصروفیت کی وجہ سے ہمارے ساتھ ٹرپ پر نا جا سکے وہ فیملی کو لے کر مری چلے گئے(وجہ کا اندازہ آپ کر ہی سکتے ہیں ) ۔ مجھے اُمید ہے کہ میری بیگم آمنہ یاسر اپنی مصوری اور شاعرانہ مہات کو کام میں لاتے ہوئے اِس ٹرپ کے حوالے سے کچھ مصوری اور شاعری ضرور کریں گی ۔ میں ابھی اور بھی لکھنا چاہتا تھا کیونکہ لکھتے ہوئے مجھے میرے والد مرحوم بہت یاد آرہے ہیں اور وہ ہوتے تو میری اس کاوش کی تصحیح کر کے اس کو اپنی شاعرانہ مہارت سے مزید دلکش بنا دیتے لیکن اگر اور زیادہ لکھا تو کرنل بختیار سے کون ۱۹۸۵ کے سوات کے سفر نامے کے بعد آج پہلی دفعہ اُردو میں اپنی مرضی سے تحریر لکھی ہے ۔ میں میجر عبداللہ اور اُن کی ٹیم کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے ہمارے لیے اعلیٰ انتظام و انصرام کا بندوبست کیا ۔
۔
(Sawati Bachy)